بہت
سی خواتین دانستہ یا لاشعوری طور پر اپنے شوہر یا پارٹنر کے کریئر کو آگے بڑھانے کے
لیے اپنےکیریئر کو داؤ پر لگا دیتی ہیں۔
جب
کیری 20 کے پیٹے میں تھیں، تو بطور سوشل ورکر کام کیا کرتی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے
اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی رقم کمائی اور کچھ رقم سیوِنگ اکاؤنٹ میں بھی رکھ دی۔
ان کے پارٹنر ایک گریجویٹ طالب علم تھے جو پارٹ ٹائم کام کرتے تھے، اور کیری، اپنی
کمائی سے زیادہ تر بل ادا کرتی تھیں۔ لیکن جب ان کے پارٹنر نے گریجویشن مکمل کی اور
انھیں نوکری کی پیشکش ہوئی تو حالات بدل گئے۔
شکاگو
میں مقیم کیری، جو اب 30 کے پیٹے میں ہیں، کہتی ہیں، ’میرے پارٹنر کو ملک کے دوسرے
کونے پر نوکری ملی، میں نے اپنا کام چھوڑ دیا اور اس کے ساتھ چلی گئی۔ اگرچہ میں اپنے
کیریئر اور اپنی زندگی میں واقعی خوش تھی، میں نے بنیادی طور پر اپنا کام ایک ایسی
جگہ کے لیے چھوڑ دیا جہاں میں کسی کو نہیں جانتی تھی اور وہاں مجھے نوکری بھی نہیں
ملی تھی۔‘
وقت
گزرنے کے ساتھ، کیری کو احساس ہوا کہ انھوں نے اپنے ساتھی کے کیریئر کو اپنی ذات پر
پوری طرح ترجیح دی ہے۔ کیری کو لگا کہ اس اقدام سے ان کی کمائی اور ان کا کریئر پیچھے
چھوٹ گیا۔
اگرچہ
امریکہ میں خواتین تعلیم میں مردوں سے آگے ہیں اور وہاں نصف سے زیادہ لیبر فورس خواتین
کی ہے پھر بھی بہت سی خواتین کا تجربہ کیری جیسا ہے۔
’ڈیلوئٹ وومن ایٹ ورک 2023 کے محققین نے سروے کے لیے 10 ممالک میں
5,000 خواتین کا سروے کیا، جن میں سے 98 فیصد شوہر یا پارٹنر کے ساتھ رہتی تھیں۔ اعداد
و شمار سے پتا چلا ہے کہ تقریباً 40 جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ اس رشتے میں ان کے
ساتھی کے کریئر کو فوقیت حاصل ہے۔ انھوں نے مالی اور سماجی عوامل سے لے کر دیکھ بھال
اور گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ سمیت کئی وجوہات کا حوالہ دیا۔
لیکن
ڈیلوئٹ سروے میں خواتین نے اپنے ساتھی کے کیریئر کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی سب سے
بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے مرد پارٹنرز نے زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے،
اس کے پیش نظر، دنیا بھر میں، کچھ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین آج بھی ہر
ایک ڈالر کے عوض 77 سینٹ کماتی ہیں۔
لندن
میں مقیم ڈیلوئٹ میں عالمی تنوع، مساوات اور شمولیت کی افسرایما کوڈ کہتی ہیں ’قدرتی
طور پر، کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو کہتے ہیں، ’اچھا، یہ شخص سب سے زیادہ کماتا ہے،خاص
طور پر اس وقت جب کوئی وقت مشکل ہوتا ہے، آپ کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا
ہے جہاں کم کمانے والا شخص سوچتا ہے کہ ٹھیک ہے، میرا کیریئر پیچھے رہ جائے تو کوئی
بات نہیں، اب چاہے یہ فیصلہ شعوری طور پر ہو یا لاشعوری۔‘
نیو
یارک سٹی کے ہنٹر کالج میں سماجیات کی پروفیسر پامیلا سٹون کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح
سے، یہ انتخاب معقول ہے، پامیلا خواتین کے کام چھوڑنے سے متعلق کتاب ’اوپٹِنگ آوٹ‘
کی شریک مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دو کتابوں کے لیے انھوں نے جن خواتین کا انٹرویو
کیا تھا ان میں انھوں نے دیکھا کہ مردوں نے تیز رفتار ترقی کی اور آگے بڑھے لیکن جب
خواتین کے اپنے اندرونی فیصلے کرنے کی بات آتی ہے، تو وہ ایسی باتیں کہیں گی کہ ’مجھے
معلوم تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ کمائی کے قابل ہو جائے گا۔‘
سٹون
کا کہنا ہے کہ جب یہ ڈالر اور سینٹ کے بارے میں ہو تو انتخاب کے معاملے میں جذبات کہیں
کھو جاتے ہیں، وہ کہتی ہیں، ’یہ خواتین کے بصارت سے محروم، یا آزاد خیال، ترقی پسند
نہ ہونے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس بارے میں ہے کہ کس کے پاس بہتر موقع ہے۔ اگر
آپ جوا کھیلنے والے شخص ہیں، تو آپ مرد کے کیریئر کے مضبوط ہونے پر شرط لگائیں گے کیونکہ
مارکیٹ میں صنفی امتیاز موجود ہے۔‘
کوئی تبصرے نہیں: