امریکی حکومت اس وقت تاریخ کا سب سے اہم اور پرخطر داؤ کھیل رہی ہے۔ اگر ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز امریکہ کو مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دیتے یا سادہ الفاظ میں قرض حاصل کرنے کی بالائی حد میں مزید اضافہ نہیں کرتے تو 31.4 کھرب ڈالرز کی مقروض دنیا کی سب سے بڑی معیشت دیوالیہ ہو جائے گی۔
امریکہ کو دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے یکم جون تک قرض کی حد بڑھانے سے متعلق حتمی معاہدے پر پہنچنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو امریکی چانسلر جرمی ہٹ کے بقول اس کے اثرات ’بہت تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں۔
مگر امریکہ کو درپیش اس صورتحال کا امریکی و عالمی معیشت اور آپ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
معیشت پر اثرات
ماہرین نےبتایا کہا کہ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکہ قرض کی وجہ سے دیوالیہ نہیں ہو گا۔
تاہم اگر ایسا ہو جاتا ہے تو انوسٹمنٹ بینک پانمور گورڈن کے چیف اکنامسٹ سائمن فرنچ سنہ 2008 میں عالمی سطح پر بینکنگ کی شعبے میں بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تو یہ عالمی معاشی بحران کو ایک ٹی پارٹی بنا دے گا۔‘
اگر امریکہ اپنے قرض حاصل کرنے کی حد کو نہیں بڑھاتا تو وہ مزید قرض نہیں کر سکے گا اور اس کے بعد اسے حکومت کے خرچے پر اپنی عوام کو دی جانے والی مراعات، سہولیات اور دیگر ضروری ادائیگیوں کے لیے پیسوں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اے جے بیل میں انوسٹمنٹ ڈائریکٹر روس مولڈ کا کہنا ہے کہ ’ایسے میں امریکہ لوگوں کو ویلفیئر کے تحت رقوم کی ادائیگی بند کر دے گا اور لوگوں کی مالی مدد روک دی جائے گی جو ان کی خرچ کرنے کی صلاحیت اور اپنے بلوں کی ادائیگی کو متاثر کرے گی، لہذا اس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔‘
وائٹ ہاؤس کی اقتصادی امور کے مشیروں کی کونسل نے تخیمنہ لگایا ہے کہ اگر طویل عرصے تک حکومت قرض حاصل کرنے کی حد بڑھانے کے کسی معاہدے ہر نہیں پہنچتی تو اس سے امریکی معیشت اپنے موجودہ حجم سے 6.1 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی میں کوئنز کالج کے صدر اور ماہر اقتصادی امور محمد ال ایرین کا کہنا ہے کہ ’دیوالیہ پن شاید امریکی کسادبازاری کا صرف نقطہ آغاز ہو۔‘
جس کے امریکہ کے اہم تجارتی شراکت دار یعنی برطانیہ سمیت دنیا بھر پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ عالمی سطح پر سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس صورت میں یہ دنیا بھر سے کم چیزیں خریدے گا۔‘
ال ایریان نہیں سمجھتے کہ امریکہ میں کساد بازاری برطانیہ میں بھی معیشت کو سست کر دے گی لیکن سائمن فرنچ کو اس کا ’100 فیصد‘ یقین ہے۔
شرح سود میں اضافہ ہو سکتا ہے
سائمن فرنچ کا کہنا ہے کہ امریکہ کا دیوالیہ ہونا نہ صرف تجارت کو نقصان پہنچائے گا بلکہ برطانیہ میں رہن کی شرح سود میں بھی مزید اضافہ کرے گا اور اس سے برطانیہ میں بے روزگاری میں اضافہ بھی سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کافی تباہ کن ہو گا۔‘
لیکن امریکہ میں معاشی مسائل برطانیہ میں گھر کے لیے جانے والے قرضوں کو مزید مہنگا کیوں کریں گے؟
جو کوئی حکومت مزید قرض لینا چاہتی ہے تو وہ مارکیٹ میں ایک بانڈ یا آئی او یو جاری کرتی ہے۔ امریکہ میں اس قسم کے حکومتی بانڈ کو ٹریریئری بانڈ کہا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں اسے گلٹ کہتے ہیں۔ اگر کوئی سرمایہ دار حکومت سے گلٹ یا ٹریرئیری بانڈ خریدتا ہے تو وہ حکومت سے اس پر سود وصول کرتا ہے۔
سائمن فرنچ کا کہنا ہے کہ ’اگر امریکی حکومت اپنا قرض واپس نہ کر سکے یا حتی کہ اس پر سود کی رقم کی ادائیگی بھی نہ کر سکے تو سرمایہ کار اس کو دیکھتے ہوئے کہیں گے کہ اگر امریکہ دیوالیہ ہو سکتا ہے تو برطانیہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایسے میں سرمایہ کار برطانیہ کے قرض کے لیے جاری کردہ گلٹ کو خریدتے وقت زیادہ شرح سود کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’قرض پر شرح سود میں اضافہ ، چاہے یہ رہن کا قرض ہو یا دوسرا قرض، وہ (سرمایہ دار) اس میں حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اور معاشی صورتحال اور ممکنہ دیوالیہ ہونے کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا حصے ضرور لیں گے۔ لہذا تما تر قرض کی سہولیات راتوں رات بہت مہنگی ہو جائیں گی۔
کوئی تبصرے نہیں: