Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

» » » سرمایہ دارانہ نظام




سرمایہ دارانہ نظام اور انسانی حقوق کا استحصال
 Capitalism system and their human rights exploitation۔ تحریر محمد سلمان سرمایہ داری نظام کیا ہے؟ وہ نظام جس میں انسانی محنت کا استحصال کرکے انسانوں کو اپنا غلام بنائے رکھنے کیلئے انسانی جسم میں اتنا توانائی برقرار رکھاجائے کہ وہ دوبارہ اسی استحصالی نظام کیلئے کار آمدہوکر اپنے حرکات کو برقرار رکھے۔ ایسا نظام * جس میں صرف سرمائے کو ہی ترجیح دیا جائے۔ * انسانوں کی بجائے سرمائے کو تحفظ دینے کا قانون مرتب کردی جائے۔ * قانون کی بنیاد ہی سرمائے پر رکھی جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا اصل چہرہ یہ ہے کہ یہ بدبودار نظام چاہتا ہے کہ انسانوں کا قابل با صلاحیت ،با وقار محنت کشوں کو پیسوں کی بنیاد پر کچھ بے ضمیر ،بے صلاحیت اور بے عقل انسانوں کے آگے جھکایا جائے اور جس کی ہر قسم کی صلاحیت کسی مفاد پرست، خود غرض ، اور انسانیت دشمن لوگوں کیلئے استعمال ہوجائے ۔ کیا انسانی وقار اور عزت دل میں رکھنے والے انسان یہ برداشت کرسکتے ہے؟ سرمایہ داری نظام کے تین نئے سکول آف تھاٹ Three new school of thoughts of capitalism system. 1 کلاسیکل 2 نیو کلاسیکل 3 مارکسٹ 1 کلاسیکل :- کلاسیکل سکول کو جدید معیشت کا سب سے قدیم فلسفہ مانا جاتا ہے اس فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سرمایہ دار کو ہر قسم کی بندش سے آزاد ہونا چاہیئے ۔ تاکہ وہ انسانوں کا خون چوس سکے ۔ * کلاسیکل فلسفے میں چیز کی قیمت کا تعین اس پر لگنے والے اخراجات سے کیا جاتا ہے ۔ * کلاسیکل فلسفہ میں : زیادہ سپلائی پیدا کرنے کیلئے سرمایہ دار بے ضمیروں کو زیادہ مزدوروں کی ضرورت ہوگی، اور زیادہ مزدور رکھنے سے لوگوں کے پاس زیادہ پیسے آجائیں گے جس کی وجہ سے خریدنے والے لوگ خود بخود بڑھ جائیں گے۔ یعنی مزدور کے خون سے پروڈکٹ کی پیداوار ہوتی ہے اور اسکا تھوڑا سا معاوضہ دے کر اس پر دوبارہ فروخت کرتے ہے جو معاوضہ دیا جاتا ہے وہ دوبارہ سرمایہ دار کی جیب میں چلا جاتا ہے ۔ * کلاسیکل سکول آف تھاٹ میں آزاد مارکیٹ، آزاد تجارت کا اجازت ہے ۔ * کلاسیکل فلسفے میں معاشی ترقی کیلئے یہ طریقہ بتایا جاتا ہے کہ منافعے کا زیادہ حصہ سرمایہ دار کے پاس جانا چاہئے اس کی وجہ یہ بتاتے ہے کہ اگر مزدور کے پاس زیادہ پیسے جائیں گے تو وہ اِسے اپنے ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ضائع کریں گے اور اگر زیادہ سرمایہ، سرمایہ دار کے پاس جاتا ہے تو وہ یہ سرمایہ دوبارہ انویسٹ کرکے ملک کے ترقی کیلئے استعمال میں لائیں گے۔ * کلاسیکل فلسفے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت کی ترقی میں ورکز کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ۔ اس کے پاس منافعے کا زیادہ حصہ جانا پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ یہ سرمایہ یہ اپنے ضروریات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کرے گا اور ملک کی معیشت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔ * اس فلسفے میں ہے کہ معیشت کی ترقی میں مزدوروں کا کوئی کردار نہیں۔ میں بتاؤ تو ملک کی معیشت میں سرمایہ دار کا کہی کردار نہیں یہ ترقی مزدور کی خون سے ہے ۔ 2 نیو کلاسیکل :- اس فلسفے میں سرمایہ دار کو آزاد کرنے کی بجائے خریدنے والے فرد کو آزادی دی جائے۔ *اس فلسفے میں پروڈکٹ کی قیمتوں کا تعین یہ بات کرے گی کہ اس چیز کی مارکیٹ میں کتنی اہمیت ہے بجائے کہ اس کے بنانے میں خرچہ کتنا آیا ہے۔ *اور یہ سمجھتے ہے کہ مزدور کو بھی اس بات پر تنخواہ نہ دی جائے کہ انھوں نے کام کتنا کیا ہے یا محنت کتناکیا ہے بلکہ تنخواہوں کا تناسب مارکیٹ میں بننے والی چیز کی اہمیت پر ہونی چاہیئے ۔ * اس فلسفے میں یہ بھی ہے کہ ورکرز کا معاشی سسٹم کی ترقی میں کوئی کردار نہیں ۔ * اس فلسفے میں توجہ کا مرکز پیداوار کی بجائے مارکیٹ کی ریٹ اور فروخت پر ہے ۔ 3 مارکسٹ :- اس فلسفے کا بھی بنیادی بات یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام سے ہی معیشت ترقی کرسکتی ہے۔ * یہ بھی مزدور کو ان کے کام اور محنت کی بنیادی مراعات دینے سے انکار کرتا ہے * مزدور سے پروڈکٹ بناتے ہے اور بنیادی ضروریات مزدور کا پورا کرنے کیلئے تیار نہیں، زیادہ پروڈکٹ بنانے کیلئے ان کو بھی زیادہ مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنے عیاشیوں اور انسانوں کو غلام بنانے کیلئے زیادہ سرمایہ بنا سکے ۔ * یہ فلسفہ کلاسیکل تھیوری کی طرح مزدوروں کو معاشی ترقی کیلئے ایک غیر فعال طبقہ نہیں سمجھتے۔ یہ مزدور کو بھی سرمایہ دار کی طرح معیشت کی ترقی میں یکساں اہم سمجھتے ہے۔ لیکن یہ فلسفہ بھی سمجھتا ہے کہ سرمایہ داری سسٹم کے بغیر معاشی سسٹم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی یہ فلسفہ صرف مزدور کو معاشی ترقی کا پرزا سمجھتا ہے لیکن مزدور کو اپنے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں۔ سرمایہ داری نظام کا کھیل :- Capitalism system how play with honest, working class humans. سرمایہ داری نظام مارکیٹ کیلئے جو چیزیں یا پروڈکٹ بناتی ہے ملکی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر، اس میں اس نظام کیلئے سب سے زیادہ جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ سرمایہ ہے بجائے سماج اور ملک کی ترقی کیلئے۔ ملک کی معاشی نظام میں سرمایہ ایک اہم۔کردار ادا کرتا ہے لیکن سرمایہ دار اگر سرمایہ کماتا ہے تو انسانی استحصال ، انسانی غلامی اور اپنے عیاشیوں کا سامان مہیا کرنے کیلئے۔ سب سے دکھ کی بات یہ ہے جو سرمایہ کمایا جاتا ہے اِن میں سرمایہ دار کا کوئی محنت شامل نہیں ہوتا بلکہ جس کی وجہ سے سرمایہ کمایا جاتا ہے وہ ورکرز طبقہ کبھی اپنے بچوں سمیت سمندر میں کھود کر جان دیتا ہے اور کبھی خود کو پھانسی دے کر پناہ کردیتے ہے۔ کبھی ساری عمر محنت کرکے دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے دربدر ہوکر ذلیل ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسے طریقے سے انسانوں کو بھوکا، ننگا اور غلام رکھتا ہے کہ انھیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ انسانی سوسائٹی کی بربادی، غلامی اور قتل عام کس وجہ سے ہورہا ہے۔ یہ انسانی مخلوق کو اسلئے بھوکا ،ننگااور غلام رکھتے ہیں کہ اسکے سارے اعصاب مفلوج کردئے جائے۔ جب سرمایہ داری نظام اِس مفلوجی کو ختم کرنے کی بجائے انسانی سانس کو اسلئے برقرار رکھتے ہے کہ اِن پر اپنا بدبودار اور گندا نظام چلایا جاسکے تو یہ انھیں اپنے لئے آقا اور بہترین سمجھنے لگتے ہے۔ ایسے جب انسانی عزت ، انسانی وقار مرتبہ اور انسانی آزادی چھین کر جب انسان کے آدھے حصے کا بھوک مٹھائی جائے تو انسان یہ سمجھنےلگتا ہے کہ مجھے زندہ رکھ کر مجھے دوبارہ انسانی وقار رتبہ اور آزادی مل گئی لیکن ایسا نہیں ہوتا بس وہ انسانی سانس کو اپنے مشین کی سرکولیشن کیلئے برقرار رکھ کر انسانوں کو انسانی غلامی میں مبتلا اور ذہن کو مفلوج کرکے بند پنجرے میں رکھا جاتا ہے جس سے نکلنے کیلئے انقلاب کی صدا کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس صدا کی بلندی کیلئے غلام انسانوں کے پاس جو مفلوج اور غلام زہنیت بچ جاتی ہے اِس سے کبھی سر بلند نہیں ہوتی۔ یہ لوگ انھیں اپنے لئے بہتر اور آزادی سمجھتے ہے کہ دیکھو! مجھے زندہ زمیں میں درگور تو کرچکا ہے لیکن مجھے موت سے بچا کر میرا مردہ غلام ذہنیت زندہ زمیں میں درگور نہ کرکے مجھ پر اپنا نظام چلا رہا ہے اسلئے ہمارے لئے یہ نظام بہتر ہے۔ ایسا کھیل کھیلتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کہ تمھاری محنت اور صلاحیت سے تمھارا ہی استحصال کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے کہ یہ اپنی قانون سے انسانی سوسائٹی کا استحصال بھی کرتا ہے لیکن اس سوسائٹی سے اپنے لئے زندہ باد کے نعرے بھی بلند کرتا ہے ۔

shahjahan

ہ۔ یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
جدید تر اشاعت
»
Previous
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

Hi ! if you have any Question . Let me know