Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

داؤد فیملی‘ کون ہے؟



داؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔

داؤد فیملی کا نام گذشتہ دنوں سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے حادثے میں جن پانچ مسافروں کی ہلاکت ہوئی ان میں سے دو کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔

شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اس آبدوز میں سوار تھے جو تفریحی مقاصد کے لیے بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں گئی۔ مگر حکام کے مطابق اس دورے پر زیر آب دباؤ کی وجہ سے آبدوز دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار پانچ مسافر ہلاک ہوگئے۔

داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

مگر داؤد فیملی کا کاروبار ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جس کے علاوہ یہ خاندان صحت اور تعلیم جیسے سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔

داؤد فیملی نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر کاروبار شروع کیا

پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔

آج اس خاندان کی کئی درجنوں صنعتیں و تجارتی ادارے ہیں۔ ان کا کاروبار پاکستان سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔

داؤد فیملی کے سربراہ احمد داؤد کی پیدائش 1905 میں انڈیا کے صوبے کاٹھیاواڑ کے علاقے بانٹوا میں ہوئی۔ ان کے والد تاجر تھے۔ انھوں نے صرف تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی جس کے بعد ان کی پروش کی ذمہ داری دادا پر آگئی۔

احمد داؤد ایک پیکر اوصاف‘ نامی کتاب کے مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے کہ احمد داؤد نے 16 سال کی عمر میں پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا جبکہ داؤد انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔

عثمان باٹلی والا، جو احمد داؤد سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ سیٹھ احمد بتاتے تھے کہ ان کی والدہ ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا رہا۔

میمن شخصیات پر کتاب کے مصنف عمر عبدالرحمان لکھتے ہیں کہ انھوں نے کاٹن جننگ پریسنگ فیکٹری کے علاوہ تیل کی مِل اور ویجیٹیبل آئل کی فیکٹری قائم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے داؤد فیملی کے دفاتر اور ان کی شاخیں کلکتہ، مدراس، کانپور، متھورہ، لدھیانہ اور دلی وغیرہ میں پھیل گئیں۔

عثمان لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔

برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ رہے۔ بعد میں وہاں سے پاکستان آ گئے۔ انھوں نے مانچسٹر اور پاکستان میں داؤد پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔

پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے ابتدائی ادوار اور داؤد خاندان

پاکستان کے فوجی ادوار داؤد فیملی کے لیے سازگار رہے، پھر چاہے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ہو یا جنرل ضیالحق کی۔

عثمان باٹلی والا لکھتے ہیں کہ احمد داؤد نے پاکستان میں کاٹن کی بروکری شروع کی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں کراچی میں اور بورے والا میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں غیر فعال ہوگئیں جو سرکاری ادارے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے زیر انتظام تھیں لیکن وہ انھیں چلا نہیں پا رہے تھے۔

لہذا ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر یہ فیکٹریاں احمد داؤد کو دی جائیں تو اچھا پرفارم کریں گی۔ انھیں یہ پیشکش کی گئی تو انھوں نے اور ان کے بھائیوں نے اس کو قبول کر لیا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ حالیہ نجکاری کے طریقہ کار کے مطابق ماضی میں اس کام کے لیے کوئی بولی وغیرہ نہیں لگی نہ نیلامی ہوئی۔ فیکٹریاں انھیں سپرد کی گئیں اور انھوں نے رقم ادا کی۔ اس سے قبل ان کے پاس لانڈھی میں داؤد کاٹن ملز موجود تھیں جو 1952 سے کام کر رہی تھی۔

مغربی پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان میں بھی قسمت آزمانے چلے گئے۔ یہ موقع بھی ایوب خان حکومت میں انھیں میسر ہوا۔ وہاں کرنافلی پیپر ملز اور کرنافلی ٹیکسٹائل ملز مزدوروں کے احتجاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے غیر فعال ہوچکی تھیں۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق نواب آف کالا باغ نے سیٹھ احمد کو پیشکش کی کہ ان کو خرید لیں، انھوں نے اس کو قبول کیا اور محنت کی تو یہ بحال ہوگئیں۔ پیپر ملز اس وقت پاکستان کی واحد مل تھی جس میں بانس سے پیپر بنایا جاتا تھا۔

17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔

1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے کرنافلی پیپر ملز، داؤد مائننگ، داؤد شپنگ سمیت کئی کارخانے اور کاروبار متاثر ہوئے۔ عثمان باٹلی والا بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان کے نقصان کا تخمینہ 30 سے 35 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔

پاکستان کے امیر ترین‘ بائیس خاندان اور داؤد فیملی

فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی ’60 سے 80 فیصد دولت پر صرف 22 خاندان قابض ہیں‘ تاہم انھوں نے ان خاندانوں کے نام نہیں بتائے تھے۔

تاہم اس معاملے نے ایک مزاحمتی عنصر کو جنم دیا اور پاکستان کے عوامی شاعر حبیب جالب نے لکھا کہ:

بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد

ہم پر اب تک جاری ہے، کالی صدیوں کی بے داد

صدر ایوب زندہ باد۔

ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ جب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے ان خاندانوں کی نشاندہی کی اور متنبہ کیا کہ اس وقت پاکستان کو سرمائے کی ضرورت ہے، لہذا یہ خاندان اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ وہ انھیں گرفتار کر لیں گے۔

بعد میں انھوں نے داؤد فیملی سمیت کئی خاندانوں کی املاک کو قومی تحویل میں لے لیا، یعنی انھیں نیشنلائز کر دیا۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ خیال ہے کہ اس وقت انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔

احمد داؤد نے امریکہ میں آئل ایکسپلوریشن کمپنی کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور ایک جگہ ڈریلنگ کی تو وہاں سے پیٹرول نکل آیا اور ان کے اچھے دن دوبارہ آگئے جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔

اس دور میں احمد داؤد واپس پاکستان آگئے اور ان کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ خیال ہے کہ ان کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق ان کے 20 ایسے منصوبے تھے جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائیوں سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد میں تقیسم کیے اور ہر ایک کے حصے میں صنعتیں آئیں جن کو انھوں نے آگے بڑھایا۔

داؤد فیملی کے اہم عہدیدار

داؤد فاونڈیشن کے سربراہ اس وقت احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ہیں۔

پاکستان میں داؤد خاندان کا ایک اور معروف نام رزاق داؤد ہیں جو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تجارت رہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارت تجارت کا قلمدان ان کے پاس تھا۔

رزاق داؤد سلیمان داؤد کے بیٹے ہیں جو احمد داؤد کے بھائی تھے۔ رزاق داؤد ڈسکن انجیئنرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔

دوسری جانب شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد اور ان کا خاندان اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے مالک ہیں۔

ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔

اینگرو اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن

کاروباری اداروں کی کارکردگی اور ان کی ریٹنگ پر کام کرنے والے ادارے پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پاکرا) کے جائزے کے مطابق اینگرو کارپوریشن کی بنیاد 1965 میں رکھی گئی تاہم اس وقت اس کا نام ایسو پاکستان فرٹیلائزر کمپنی تھا جو ماڑی گیس فیلڈ کی دریافت پر قائم کی گئی تھی۔

غیر ملکی شراکت داروں کے نکلنے کے بعد اس کا نام اینگرو کیمیکل کر دیا گیا جو فرٹیلائزر کے شعبے میں کام کر رہی تھی اور دوسرے شعبوں میں داخل ہونے کے بعد اس کا نام اینگرو کارپویشن رکھ دیا گیا جس کے تحت دس سے زائد کمپنیاں کام کرتی ہیں۔

اینگرو کارپوریشن پاکستان سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنی ہے جس میں اکثریتی حصص داؤد فیملی کے اداروں اور افراد کے ہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے جبکہ ان کے والد حسین داؤد اس کے چیئرمین ہیں۔ شہزادہ داؤد کے بھائی صمد داؤد اس کے ڈائریکٹر ہیں۔

حسین داؤد اور ان کے خاندان کی دوسری بڑی کمپنی داؤد ہر کولیس کارپوریشن ہے جو اینگرو کارپوریشن میں بھی حصص رکھتی ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے چیئرمین حسین داؤد ہیں جبکہ ان کے بیٹے حسین داؤد اس کے وائس چیئرمین ہیں اور شہزادہ داؤد اس کے ڈائریکٹر تھے۔

اگرچہ حسین داؤد اور ان کے خاندان کی ملکیتی اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنیاں ہیں جس میں عام عوام کے علاوہ اداروں کے بھی حصص ہیں تاہم ان کے اکثریتی حصص داؤد فیملی کے پاس ہی ہیں۔

پاکرا کے مطابق اینگرو کارپوریشن کے بورڈ میں سپانسرنگ فیملی یعنی داؤد خاندان کے افراد غالب ہیں۔

پاکستان میں داؤد خاندان کی کمپنیاں اور اثاثے

حسین داؤد اور ان کے بچے داؤد ہرکولیس کارپوریشن اور اینگرو کارپوریشن میں اکثریتی حصص مالک ہیں۔ یہ دونوں کارپوریشن معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔

داؤد ہر کولیس گروپ کی سالانہ رپورٹ ک مطابق یہ گروپ اپنی مختلف ایسوسی ایٹ کمپنیوں اور ذیلی اداروں کے ذریعے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جیسے اینگرو فرٹیلائرز میں اینگرو کارپویشن کے 56 فیصد حصص ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2022 سے لے کر اب تک یہ گروپ توانائی، فوڈ اینڈ ایگری کلچر، پیٹرو کیمیکل، کیمیکل سٹوریج، قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

اینگرو ایگزمپ ایگری‘ میں کارپویشن سو فیصد حصص کی مالک ہے۔ اینگرو انرجی ٹرمینل میں اس کے 56 فیصد حصص ہیں جبکہ اینگرو انرجی لمٹیڈ میں یہ سو فیصد حصص کی مالک ہے جس کے تحت اینگرو پاور جن قادر پور اور اینگرو پاور جن تھر پاور پلانٹس ہیں۔

جبکہ سندھ حکومت کی اینگرو کول مائئگ کمپنی میں حسین داؤد کے خاندان کی ملکیت اینگرو کارپوریشن گیارہ فیصد حصص کی مالک ہے۔ کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسی طرح کیمیکل کے شعبے میں اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکل میں کارپوریشن 56 فیصد حصص کی مالک ہے۔

اینگرو کارپوریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ مجموعی طور پر تقریباً 750 ارب روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔

اینگرو کارپویشن کے 2022 کے سالانہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق اس نے پورے سال میں 46 ارب روپے کا منافع کمایا۔ داؤد ہر کولیس کارپوریشن کے سالانہ مالیاتی نتائج کے مطابق اس کا 2022 میں منافع ساڑھے تین ارب روپے سے زائد رہا۔

سالانہ رپورٹ کے مطابق داؤد ہرکولیس کارپوریشن مختلف شعبوں میں دو ہزار سے زائد افراد کو ملازمت دی رہی ہے جبکہ دوسری جانب اینگرو کارپویشن کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔

اینگرو کارپوریشن کے مطابق اس نے سنہ 2022 میں سماجی شعبے میں 84 کروڑ روپے خرچ کیے جن میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، ماحولیات کی بہتری وغیرہ شامل ہیں۔

کارپوریشن کے مطابق اس نے حکومت کو ٹیکس کی مد میں 2022 میں ساڑھے 29 کروڑ ڈالر جمع کرائے جبکہ اس کی ذیلی کمپنی اینگرو انرجی نے ملک کے نوے لاکھ افراد کے گھر میں توانائی کی ضرورت پوری کی۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق داؤد گروپ کے ملکیتی ادارے اینگرو کارپویشن کی کارکردگی مسلسل بہتر رہی ہے۔ اس کی لانگ ٹرم کارکردگی پلس اے اے ہے اور اس کا آؤٹ لُک (مجموعی حالت) مستحکم ہے۔

داؤد خاندان کی تعلیم، سائنس اور صحت کے شعبوں میں خدمات

پاکستان میں 1961 میں داؤد فاؤنڈیشن قائم کی گئی جس کا افتتاح جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ داؤد فیملی نے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔

فاونڈیشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیٹھ احمد خان نے بتایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے شہر میسور میں انھوں نے سکول کی عمارت قائم کی ہے، اس کے ساتھ بورے والا میں گورنمنٹ کالج میں سائنس بلڈنگ کی تعمیر کرائی گئی اور کراچی کے دیہی علاقے درسانو چھنو میں سکول تعمیر کیا گیا۔

داؤد فاونڈیشن نے 1962 میں کراچی میں داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیا جو پاکستان کے نجی شعبے میں انجینیئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا پہلا پروفیشنل کالج تھا۔ یہاں کیمیکل انجینیئرنگ، میٹالرجی اور میٹریلز انجینیئرنگ کے شعبوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔

بعد میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں اس کو نیشنلائز کر دیا گیا اور اس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس آگیا۔

کراچی میں 1983 کے دوران احمد داؤد گرلز پبلک سکول کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی فاونڈیشن کے زیر انتظام ہے جہاں 2500 سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لمس لاہور، کراچی یونیورسٹی میں بھی داؤد فیملی کے نام سے بزنس سکول موجود ہیں۔

کراچی میں 1991 سے قائم پاکستان میں گردوں کے سب سے بڑے ہسپتال انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ یعنی ایس آئی یو ٹی میں بھی داؤد فیملی کا بڑا کردار ہے۔

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر گوہر کے مطابق بشیر داؤد انھیں اربوں روپے کے عطیات کر چکے ہیں جن سے تین بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہاں بچوں اور کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائلاسز اور ٹرانسپلانٹ کی مشنری کی خریداری میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔

سائنس کے فروغ کے لیے کراچی میں اپنی نوعیت کا پہلا سائنس میوزیم قائم کیا گیا۔ میگنیفائی سائنس نامی اس میوزیم میں سائنس کی نمائشیں اور تعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

ریلوے کے گودام کو تین منزلہ سائنسی میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں سائنس، فزکس اور ریاضی کی تھوریز کے حوالے سے تجربات اور مشقیں کی جاتی ہیں۔

داؤد فاونڈیشن نے کراچی میں پبلک سپیس کے فروغ کے لیے ٹی ڈی ایف گھر بنایا۔ 1930 میں تعمیر کیے گئے اس گھر میں کراچی کی تاریخ اور پرانی یادوں سے وابستہ فرنیچر، گراموں فون سمیت دیگر اشیا موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ٹی ڈی ایف گھر کراچی میں متوسط طبقے کے لیے بنائی گئی پہلی کوآپریٹو سوسائٹی جمشید کواٹرز میں واقع ہے جو کراچی کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے۔

اس سوسائٹی کی بنیاد 1920 میں جمشید نسروانجی نے رکھی تھی اور یہاں مسلمان، ہندو، مسیحی، پارسی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔

 

سلطنت عثمانیہ میں طاقتور لونڈیاں

 

سلطنت عثمانیہ کے حرم کی بدولت تاریخ کی چند طاقتور ترین خواتین دنیا کے سامنے آئی تھیں۔

ییل یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن میخائل نے بتایا کہ ’عثمانی تاریخ کے 600 سے زائد برسوں میں، تقریباً تمام سلطانوں کی مائیں تکنیکی اعتبار سے غلام تھیں‘ اور دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک میں سیاسی طاقت کے کھیل میں خواتین کا اثر و رسوخ قابل ذکر تھا۔

ایبرو بویار نے اپنی کتاب ’عثمانی خواتین اِن پبلک سپیس‘ میں لکھا کہ ان میں سے بہت سی خواتین اس کوشش میں کامیاب ہوئیں کہ وہ حرم میں اپنا وجود نہ کھو بیٹھیں یا سلطانوں کے لیے محض جنسی اشیا یا بچے پیدا کرنے والی عورتیں ہی نہ بن کر رہ جائیں۔

وہ مختلف سطحوں اور مختلف کرداروں میں نظر آنے والی سیاسی کردار تھیں۔

اگرچہ سلطنت عثمانیہ کے کچھ شہزادوں اور سلطانوں نے محبت کی شادیاں کیں جبکہ بہت سے تعلق سیاسی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر قائم ہوئے۔

مثال کے طور پر عثمانی حکمران سیاسی اتحاد قائم کرنے یا اسے مضبوط کرنے کے لیے خطے کے دیگر رہنماؤں کی بیٹیوں سے بھی شادیاں کرتے تھے۔

اس نکتے کی نشاندہی ایبرو بویار نے کی ہے، جو ترکی میں مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں۔

مگر پھر وقت کے ساتھ ایک نمایاں رجحان اُبھر کر سامنے آیا۔

میخائل کہتے ہیں کہ ’سلطان کی ترجیح ہوتی تھی کہ ان کے بچے، یعنی شہزادے اور مستقبل کے سلطان، ان کی بیویوں کے بجائے ان کی لونڈیوں کے بطن سے پیدا ہوں۔

یعنی اولاد پیدا کرنے کے لیے انھوں نے حرم میں سے ہی کسی ایک عورت کا انتخاب کیا۔ بویار کہتے ہیں کہ اس طرح وہ آزاد خواتین، جو ایک مخصوص خاندان یا اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں ایک طرف رہ گئیں۔

سلطانوں نے اپنے وارث کی ماں کے طور پر ایسی خواتین کا انتخاب کرنا شروع کیا جن کا کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا۔

بویار کہتے ہیں کہ اس دور میں ’اگر ایک بیٹا بیوی سے ہوا اور دوسرا لونڈی سے، تو دونوں کو تخت پر بیٹھنے کا یکساں حق تھا۔

ان کے مطابق حکمرانوں نے اس فکر کے بغیر لونڈیوں سے اولاد پیدا کی کہ انھیں ان سے شادی کرنی ہے۔

بہت سے امیدوار

عثمانی فتوحات کے نتیجے میں بہت سی خواتین کو زبردستی شاہی دارالحکومت لے جایا گیا۔

میخائل وضاحت کرتے ہیں کہ ’اگر ہم سلطنت کے کلاسیکی دور کی بات کریں تو ان میں سے بہت سی خواتین جنوبی اور مشرقی یورپ سے آئی تھیں۔ یعنی موجودہ رومانیہ اور یوکرین، نیز جنوبی روس، بحیرہ اسود کے علاقے اور قفقاز سے۔

جب وہ ایک بار حرم میں آ جاتیں تو وہ سلطان کی ملکیت بن جاتیں جن کے ساتھ اسے جنسی تعلق قائم کرنے کا حق حاصل تھا۔

بویار کا کہنا ہے کہ لیکن جس چیز نے ایک عام لونڈی کو طاقتور بنا دیا وہ بچہ پیدا کرنا تھا، ’خاص طور پر اگر وہ لڑکا ہوتا۔

ایک ایسے وقت میں جب بہت سے بچے صحت کے مسائل کی وجہ سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے تھے، زیادہ مرد وارث پیدا کرنا اہم اور ضروری سمجھا جاتا تھا۔

میخائل کہتے ہیں کہ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ایک خاص عمر کے بعد شہزادے کو میدان جنگ میں جانا ہوتا جہاں اس کی ہلاکت کا امکان موجود ہوتا۔

سلطنت عثمانیہ کی بنیاد موروثیت تھی اور اگر مرد وارث نہ ہوتے تو یہ ختم ہو جاتی۔

اس لیے یہ ضروری تھا کہ مرد بچوں کی زیادہ تعداد موجود ہوتی تاکہ اگر کسی ایک کو کچھ ہو بھی جائے تو دوسرا بچہ اقتدار کرنے کے لیے موجود ہو۔

حرم سے اقتدار تک

پروفیسر میخائل کہتے ہیں کہ حرم میں ماں اور بیٹا ’ایک ٹیم‘ کی طرح ہوتے تھے۔

سلطان کا جانشین بننے کی دوڑ میں، مائیں اہم اس لیے ہوتی تھیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس رتبے تک پہنچنے میں مدد فراہم کر سکتی تھیں۔

کون سا بیٹا اپنے باپ کی طرف سے سب سے زیادہ پسند کیا جائے گا؟ کس کو بہترین تعلیم ملے گی؟ کون سا بیٹا بڑا ہو کر سلطنت میں اہم مقام حاصل کرے گا؟

اس طرح نہ صرف ورثا کے درمیان بلکہ ان کی ماؤں کے درمیان بھی ایک قسم کے مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔

جب یہ بچے بڑے ہوتے، 10 اور 15 سال کی عمر کے درمیان، تو انھیں خود کو جانشینی کا اہل ثابت کرنے کا موقع ملتا اور انھیں ہونے مختلف عہدے یا کام سونپے جاتے: مثال کے طور پر، کسی ایک چھوٹے سے شہر پر حکومت۔

یہ بچے اپنے ماؤں کے ہمراہ جاتے تھے جبکہ اُن کے ساتھ مشیروں کا ایک دستہ بھی موجود ہوتا۔

میخائل کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ 11، 12، 13 سال کا بچہ، جسے کسی شہر کا گورنر مقرر کیا جاتا ہے، ایسی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، اس طرح یہ واضح ہے کہ ان چھوٹے شہروں کے انتظام میں مائیں بہت اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

اگرچہ سرکاری طور پر، شہزادہ شہر کا گورنر ہوتا تھا، لیکن حقیقت کچھ اور تھی اور تاریخ دان اسے دستاویزات، عدالتی ریکارڈ اور اس دور میں لکھے گئے خطوط سے جانتے ہیں کہ درحقیت اُن کی ماں شہر کا انتظام سنبھالتی تھیں۔

لیکن سب سے بڑا انعام سلطنت کے دارالحکومت میں تھا۔

یقیناً، اگر آپ کا بیٹا سلطان بن جاتا ہے، تو خاندان میں آپ کا مقام بدل جاتا ہے، آپ شاہی ماں ہیں، آپ خاندان کے اندر ایک اعلیٰ شخصیت بن جاتی ہیں۔

یہ ایک بہت طاقتور عہدہ ہوتا اور عثمانی تاریخ کے مختلف اوقات میں ایسی ماؤں نے محل میں بہت زیادہ طاقت حاصل کی۔

عثمانی تاریخ کے 600 سال سے زیادہ میں، تقریباً تمام سلطانوں کی مائیں تکنیکی طور پر غلام تھیں، جن کی ابتدا عام طور پر سلطنت عثمانیہ میں نہیں ہوئی تھی اور غالباً وہ کسی عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں اور پھر حرم میں داخل ہونے پر اسلام قبول کر لیا۔

استنبول میں سیاحوں کے لیے پرکشش مقامات میں سے ایک توپکپی محل ہے، جو تقریباً 1478 سے 1856 تک عثمانی شاہی دربار کا انتظامی مرکز اور رہائش گاہ تھا۔

جب آپ محل میں داخل ہوتے ہیں، تو آپ دیکھتے ہیں کہ حرم عثمانی سلطنت کے سرکاری دفاتر کے بالکل ساتھ ہے۔

اس طرح یہ خواتین ’طاقت کے مرکز‘ میں موجود تھیں۔ سلطان، ان کے مشیر اور سینیئر وزرا کے بھی بہت قریب جو سلطنت کا ایسے اہم سیاسی عہدے تھے جو آج کے وزیر اعظم کے برابر ہیں۔

میخائل کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتی کارروائی کو قریب سے دیکھ کر ہی وہ خود بھی اس میں ملوث ہوئیں ہوں گی۔

اس طرح ایک ایسا منظر نامہ وجود میں آیا جسے میخائل ’سب سے بہتر کی بقا‘ کا نام دیتے ہیں۔

وہ ماں جو تیزی سے سیکھنے کے قابل تھی اور جو کچھ وہ اپنے بیٹے تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ دنیاوی اعتبار سے مفید ثابت ہوتا۔

اس کے بعد حرم مستقبل کے سلطانوں کی تربیت کے لیے ایک جگہ بن گیا، جیسا کہ ایک محقق نے 1470 سے 1520 تک راج کرنے والے سلطان سلیم اول کی سوانح حیات ’گاڈز شیڈو‘ میں بیان کیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’تمام تر آسائشوں سے مزین حرم، جسے افسانوی حیثیت دی جاتی ہے، کسی عام مسلمان گھرانے کی نسبت ایک سکول جیسا تھا۔

درحقیقت، وہ کہتے ہیں، سلطان بایزید دوم کے بعد تین مضبوط ترین امیدوار لونڈیوں کے بیٹے تھے اور سب نے حرم میں ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کی: زبانیں، فلسفہ، مذہب، عسکری فنون۔

ان میں سے سلیم اول غالب رہے جن کے دور میں سلطنت کی توسیع ہوئی۔

جانشینی کی دوڑ میں اکثر سوتیلے بھائی حریف بن جاتے تھے، کچھ ایک دوسرے کے دشمن تک بن جاتے۔

یہ ممکن ہے کہ ان کے درمیان بہت گہرے رشتے نہ ہوں، کیوںکہ اگرچہ ان کے والد ایک تھے، لیکن وہ ہمیشہ حریف رہیں گے۔

یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے طور پر، حرم میں، انھیں تربیت دی گئی تھی کہ وہ خود کو تخت کے دعویدار کے طور پر دیکھیں۔

برسوں بعد، نوعمروں کے طور پر، انھیں مختلف شہروں میں بھیج دیا گیا، جس سے ان کے کبھی قریبی تعلقات قائم کرنے کے امکانات کو مزید کم کر دیا گیا۔

ایک بار جب ایک بیٹے نے تخت حاصل کر لیا، تو یہ عام بات تھی، خاص طور پر سلطنت کے ابتدائی ادوار میں، کہ وہ اپنے حریفوں کو ختم کر دیتا۔

مثال کے طور پر سلیم اول نے تخت سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے دو سوتیلے بھائیوں کو قتل کر دیا۔

پروفیسر میخائل اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ عموماً بڑے بیٹے کو تخت وراثت میں ملتا تھا مگر تکنیکی طور پر کوئی بھی مرد وارث اس کا حقدار تھا۔ لہذا، زیادہ تر جانشینوں میں خونریزی ہوا کرتی تھی۔

پروفیسر بویار کا کہنا ہے کہ سچ یہ ہے کہ جو لونڈیاں ’سلطان کی پسندیدہ‘ بنتی تھیں، وہ ’اپنے پیشروؤں سے زیادہ سیاسی طاقت‘ رکھتی تھیں۔

سلطان کے دل میں داخل ہو کر، وہ سیاسی اقتدار میں داخل ہو گئیں۔

اور اس کی ایک مثال یوکرائنی نژاد غلام روکسیلینا ہے جس نے سلطان سلیمان کی محبت جیتی اور تاریخ میں ایک عظیم ملکہ کے طور پر گردانی گئیں۔

اغوا ہو کر غلامی میں بیچے جانے کے بعد، وہ نوعمری میں سلیمان کے حرم میں آئیں اور پھر پہلے سلطان کی پسندیدہ بنیں، پھر اس کی بیوی اور پھر ان کے کئی بچوں کی ماں۔

لیکن سلیمان، جس نے 1520 اور 1566 کے درمیان حکومت کی، کا پہلے ہی ایک اور عورت سے ایک بیٹا مصطفی تھا اور مصطفیٰ جانشینی کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔

لیکن روکسیلینا، جو خود بھی کافی طاقتور بن چکی تھیں، چاہتی تھیں کہ اگلا سلطان ان کا بیٹا بنے اور اسی لیے انھوں نے سلطان سلیمان کو قائل کیا کہ مصطفیٰ ان کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہا ہے۔

سلطان نے اپنے بیٹے کو غداری کے الزام میں قتل کر دیا اور یوں سیلم دوم، جو روکسیلینا کا بیٹا تھا، نے تخت سنبھال لیا۔

بویار کا کہنا ہے کہ 16ویں صدی کے وسط سے لے کر تقریباً 17ویں صدی کے وسط تک، محل میں ایسی خواتین نمایاں تھیں جن کی حرم میں زندگی کی شروعات تو بطور غلام ہوئی لیکن پھر وہ سیاسی اعتبار سے طاقت ور بنیں۔

تاہم وہ واضح کرتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں غلام کا تصور کافی مختلف تھا۔

میخائل کہتے ہیں کہ جب ہم غلام کا لفظ سنتے ہیں، تو ہم ٹرانس ایٹلانٹک غلاموں کی تجارت کے بارے میں سوچتے ہیں، جو افریقہ سے امریکہ تک لے جائے گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں غلامی موروثی نہیں ہوتی تھی اور غلام آزاد ہو سکتا تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یقینا یہ خواتین آزاد نہیں تھیں۔ ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ، انھیں سلطان کے لیے جنسی طور پر دستیاب ہونا تھا۔

لیکن ان کے بچے آزاد پیدا ہو سکتے تھے۔

اپنی کتاب میں، میخائل نے بتایا ہے کہ سلیم اول کی والدہ گلبہار خاتون کے والد نے عثمانی فوج میں شامل ہونے کے لیے اسلام قبول کیا، لیکن ساتھ ہی اپنی بیٹی کو، ایک لونڈی کے طور پر، سلطان کو دے کر ایک بڑا سماجی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔

گلبہار یہ جانتی تھیں کہ وہ اپنے آبائی شہر کی نسبت محل میں زیادہ آرام دہ زندگی گزاریں گی اور یہ کہ ان کو ایک سلطان کی ماں بننے کا موقع بھی ملے گا اور اس وجہ سے وہ سلطنت کی سب سے اہم خاتون ہوں گی۔ دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں سے ایک۔

اور ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے حکومت میں اپنا اثر و رسوخ پھیلایا، جو کہ عثمانی شاہی ماؤں کی پہچان ہے۔

63 ہزار ڈالر سے زائد میں فروخت ہونے والا مائیکرو سکوپ سے دیکھا جانے والا ننھا سا بیگ

 

نمک کے زرے سے بھی چھوٹا مائیکرو سکوپ کی مدد سے دیکھا جانے والا ہینڈ بیگ ایک نیلامی میں 63 ہزار سات سو پچاس ڈالر میں فروخت ہوگیا ہے۔

اس ننھے بیگ کو دیکھنے کے لیے ایسی خصوصی خوردبین کی ضرورت پڑتی ہے، جس کی پیمائش صرف 657 x 222 x 700 مائیکرو میٹر ہے۔

آرٹ کا یہ بہترین شاہکار نیویارک میں فن پاروں کے معروف آرٹ گروپ مسچف (MISCHF) کی ملکیت تھا جو اپنے فن پاروں کی نیلامی بھی کرتے ہیں۔

نیلام گھر کے مطابق اس فن پارے کا حجم اتنا چھوٹا ہے جسے سوئی کے سوراخ سے بآسانی گزارا جا سکتا ہے۔

جب ہی اس مختصر ترین پرس کو دیکھنے کے لیے آپ کو ایک خوردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔

مسچف آرٹ گروپ عجیب و غریب ڈیزائنز پر منبی فن پاروں کے باعث مشہور ہے۔

آرٹ گروپ کی کلیکشن میں ایسے نادر جوتے بھی شامل ہیں جن کے تلوے میں انسانی خون کا قطرہ موجود ہوتا ہے جبکہ ایک ایسا کولون بھی ہے جس کی بو WD-40 جیسی ہوتی ہے جبکہ ربڑ کے لال بڑے بوٹ بھی انوکھی کلیشن کا حصہ ہیں۔

اس بار مسچف نے چھوٹے ہینڈ بیگز کے فیشن کو سامنے رکھ کر اس کی انتہا تک جانے کا فیصلہ کیا۔

آرٹ گروپ نے بیگ کے بارے میں اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ ’بڑے ہینڈ بیگ، نارمل ہینڈ بیگ اور چھوٹے ہینڈ بیگز ہیں لیکن یہ بیگ چھوٹے سائز کی حتمی شکل ہے۔

اس بیگ میں لگژری ہینڈ بیگ ڈیزائنر لوئی ویتوں کی برانڈنگ ہے تاہم اس کا برانڈ سے کوئی تعلق نہیں۔

اس بیگ کو بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا، جو اکثر چھوٹے میکنیکل ماڈلز اور سٹرکچر بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

سائنس اور نیچر کے میگزین ’سمتھ سونین‘ کی رپورٹ کے مطابق جب اس ننھنے بیگ کو بنایا جا رہا تھا تو برانڈ کی طرف سے جائزہ لینے کے لیے بھیجے گئے کچھ چھوٹے بیگ کے نمونے اتنے چھوٹے تھے کہ وہ آرٹ گروپ کی ٹیم سے کھو گئے۔

تاہم اس نایاب آرٹ پیس کا کھو جانا نئے بیگ کے مالک کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خریداری میں ڈیجیٹل ڈسپلے کے ساتھ ایک خوردبین بھی شامل تھی۔

ڈیجیٹل ڈسپلے کے ساتھ یہ خصوصی خوردبین آن لائن خریدی جا سکتی ہے، جس کی قیمت 60 ڈالر سے 10 ہزار ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

نیلامی کی سائٹ نے مائیکروسکوپ کی قیمت بیگ سے الگ نہیں درج کی۔ اس نایاب آئٹم کے لیے بولی 15 ہزار ڈالر سے شروع ہوئی۔

بیگ پر لوئی ویتوں برانڈنگ کے استعمال کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسچف کے چیف کری ایٹیو آفیسر کیون ونسر نے اس ماہ کے شروع میں نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ گروپ نے برانڈ سے اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں مانگی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’جس کام کی اجازت نہ ملنے کا اندیشہ ہو بہتر ہے وہاں کام کر گزریں اور بعد میں معافی مانگ لیں۔

واضخ رہے کہ مسچف کے خلاف 2021 میں جوتے اور سپورٹس کا سامان بنانے والے بین الاقوامی برانڈ نائیکی نے انسانی خون والے جوتوں کی فروخت کا مقدمہ جیتا تھا۔

نائیکی کا مؤقف تھا کہ اس کے جملہ حقوق چوری ہوئے ہیں۔ کمپنی نے نیو یارک کی ایک عدالت میں ان جوتوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور ساتھ ہی عدالت سے ان جوتوں کی فروخت کو روکنے کی بھی درخواست کی تھی

امریکی تعلیمی اداروں میں نسلی بنیاد

 

مریکی سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک فیصلے کے تحت اعلی امریکی تعلیمی اداروں میں نسلی تنوع کے اعتبار سے داخلے کے لئے جاری کئے گئے ‘ایفرمیٹو ایکشن’ کو مسترد کر دیا ہے ، اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ جس پالیسی کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے طلباء کو نسلی بنیاد پر جو رعایت مل رہی تھی، وہ ختم کر دی گئی ہے، اور اب اعلیٰ تعلیم کے امریکی اداروں کو اپنے طلباء میں نسلی تنوع پیدا کرنے کے کچھ نئے طریقے ڈھونڈنے ہونگے ۔

'ایفرمیٹیو ایکشن' وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے درخواست دینے والے طلبا کے درمیان نسل، رنگ اور قومیت کی بنا پرامتیاز کو روکا جاتا ہے اور کالجوں میں تنوع کے لیے نسلی بنیاد پر درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس کی موجودہ شکل کا استعمال پہلے پہل صدر کینیڈی کے ایگزیکیٹیو آرڈر کے تحت 1961 میں کیا گیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں ایفرمیٹیو ایکشن پروگرام کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو طلباء معیار پر پورے نہیں اترتے انہیں نسل کی بنیاد پر معیار پر پورا اترنے والے طلبا پر ترجیح دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج نسلی تنوع سے مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کو حرفِ آخر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا امریکہ ایک نظریہ ہے، امید اورمواقع کا۔ ہمیں آگے بڑھنے کے نئے راستے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ میں امتیاز اب بھی موجود ہے۔ امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے چنانچہ تین کے مقابلے میں چھ کی اکثریت کے اس فیصلے نے ہارورڈ اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں جو امریکہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارے ہیں، داخلوں کا یہ طریقہ روک دیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے فیصلے کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اس فیصلے سے "سختی سے۔۔۔سختی سے" اختلاف کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا،"انہیں اپنا یہ وعدہ ترک نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ طلباء تنظیموں میں متنوع پسِ منظر اور ایسے تجربے کو یقینی بنائیں گے جو پورے امریکہ کی عکاسی کرے۔"

فیصلہ سناتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ میں یونیورسٹیز نے غلط طور پر یہ طے کئے رکھا کہ 'کسی فرد کو اس کی بہترین صلاحیت یا تعلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ 'ہماری آئینی تاریخ اس بے انصافی کو برداشت نہیں کر سکتی'۔

سٹس کلیرنس تھامس امریکی سپریم کورٹ کے دوسرے سیاہ فام جج ہیں، اور ایک طویل عرصے سے ‘ایفرمیٹو ایکشن’ کو ختم کرنے کے حامی ہیں، انہوں نے ایک الگ نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ یونیورسٹیوں کی ایڈمیشن پالیسیوں کو ویسے ہی دیکھتا ہے، جیسی کہ وہ ہیں، یعنی ، مبہم اور نسلی بنیاد پر دی جانے والی ترجیحات ، تاکہ یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں میں ایک خاص طریقے کا نسلی تنوع پیدا ہو’۔

جسٹس سونیا سوٹو مائیرنے , جو ہسپانوی پس منظر رکھتی ہیں، اس فیصلے پر اپنا اختلافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے عشروں کی مثالی اوراہم پیش قدمی کو ختم کردیا گیا ہے۔

جسٹس تھامس اور سوٹو مائیر دونوں نے، جو یہ واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ افرمیٹو ایکشن نے لا کالج میں ان کے اپنے داخلے میں کردار ادا کیا تھا ، کمرہ عدالت میں اپنے نوٹ پڑھ کر سنائے۔ عام طور پر اختلافی نوٹ سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنائے نہیں جاتے۔

فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پہلی سیاہ فام خاتون جسٹس کیٹانجی براؤن جیکسن نے کہا،"یہ ہم سب کے لیے ایک المیہ ہے"

کیٹانجی براؤن اس فیصلے میں بیٹھی بھی نہیں کیونکہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایڈوائیزری گورننگ بورڈ میں شامل ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی نے ٹوئٹ کیا کہ " اب طلباء برابری کے معیار اور انفرادی میرٹ کی بنیاد پر مقابلہ کر سکیں گے۔ اس سے کالج میں داخلے کے عمل کو منصفانہ بنایا جائے گا اور قانون کے تحت مساوات کو برقرار رکھا جائے گا۔"

امریکہ کے دو سابق صدور نے اس بارے میں انتہائی مختلف نکتہ نظر بیان کیا ہے۔

سابق امریکی صدر اوباما نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ"کسی بھی پالیسی کی طرح، ایفرمیٹوایکشن بہترین نہیں تھا۔ لیکن اس نے مشیل اور مجھ جیسے طالب علموں کی نسلوں کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیا کہ ہم بھی سب کا حصہ ہیں۔ اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔ "

سابق صدر ٹرمپ نے اسے امریکہ کیلئے ایک عظیم دن قرار دیا اور کہا،"ہم تمام تر میرٹ کی بنیاد پر واپس آرہے ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہیے!"

امریکی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جسے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے، جمعرات کو صبح دس بجے کے قریب سنایا گیا۔ اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سپریم کورٹ کے باہر شہریوں کی بھیڑ جمع تھی۔

ہائی سکول کی ایک طالبہ کیٹ نینالہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں کالج میں داخلے کے لئے کسی کی نسل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔

ایک اور طالبہ ایلس ویلچ کا کہنا تھا کہ کسی کی نسلی شناخت سے یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھا کام کرے گا، اچھا طالبعلم ثابت ہوگا یا کالج کے تعلیمی ماحول میں کامیابی حاصل کرے گا، اور اس بات سے یہ بھی فرق نہیں پڑنا چاہئے کہ کس طالبعلم کو کس کالج میں جانا چاہئے۔

لیکن سپریم کورٹ کے باہر موجود کئی لوگوں کی رائے اس سے مختلف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے کالج اور یونیورسٹیوں کی خود کو متنوع رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

ریاست اوریگن کے ایک فلاحی تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کرسٹوفر بینکس اس فیصلے پر افسردہ نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے امریکہ میں نوجوانوں کے لئے مواقعے محدود ہوجائیں گے۔

پولز کے مطابق امریکی شہریوں کی رائے اس معاملے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کی تقریبا نصف بالغ آبادی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رنگ و نسل کی بنیاد پر داخلوں کی مخالف ہے، جبکہ ایک تہائی آبادی اس پالیسی کو اپنائے رکھنے کے حق میں ہے۔

گوگل برڈ آرٹی فیشل انٹیلیجینٹس کیا یے

 



𝙂𝙤𝙤𝙜𝙡𝙚 𝘽𝙖𝙧𝙙 𝘼𝙄

گوکل برڈ  ایک ناقابل یقین حد تک طاقتور ٹول ہے جو ڈیجیٹل مارکیٹرز کو اعلیٰ معیار کا مواد تخلیق کرنے، گاہکوں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے مشغول ہونے، کسٹمر کے رویے کے بارے میں قیمتی بصیرت حاصل کرنے، اور وقت بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ جیسا کہ AI ٹیکنالوجی کا ارتقاء جاری ہے، 𝘽𝙖𝙧𝙙 بلاشبہ ان کاروباروں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ٹول بن جائے گا جو تیزی سے ڈیجیٹل دورکے منظر نامے میں آگے رہنے اور ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔

  یہ کس طرح ڈیجیٹل مارکیٹرز کی مدد کر سکتا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں

𝐂𝐨𝐧𝐭𝐞𝐧𝐭 𝐂𝐫𝐞𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧: ڈیجیٹل مارکیٹرز کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک پرکشش اور اعلیٰ معیار کا مواد بنانا ہے۔ کے ساتھ، مارکیٹرز

آرٹی فیشن ینگویج ماڈل کی فطری لینگویج پروسیسنگ کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھا کرآپ متعلقہ مواد تیار کر سکتے ہیں ۔ یہ مواد مختلف شکلیں لے سکتا ہے، بشمول سوشل میڈیا پوسٹس، بلاگ آرٹیکلز، ای میل نیوز لیٹر وغیرہ۔

𝐂𝐮𝐬𝐭𝐨𝐦𝐞𝐫 𝐄𝐧𝐠𝐚𝐠𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭: 𝐧𝐧𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭: 𝐧𝐧𝐭 اس سے ڈیجیٹل مارکیٹرز کو صارفین کے ساتھ زیادہ ذاتی نوعیت کے اور بامعنی انداز میں مشغول ہونے میں مدد مل سکتی ہے، انہیں ان کے سوالات اور خدشات کے فوری اور درست جوابات فراہم کر سکتے ہیں۔

اسکو مختلف ڈیٹا اینالیٹکس ٹولز کے ساتھ مربوط کیا جا سکتا ہے تاکہ بصیرت، کسٹمر کے رویے، ترجیحات کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکے۔ اس معلومات کو پھر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی مہمات کو بہتر بنانے اور مجموعی کاروباری حکمت عملیوں کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مختلف کاموں کو خودکار کر سکتا ہے، جیسے کہ مواد کی تخلیق اور گاہک کی مشغولیت، مارکیٹرز کے لیے اپنی مہمات کے دیگر اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے وقت نکال کر۔

کینیڈا اور گوگل کی جنگ

 


یس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا اور گوگل نے اپنے پلیٹ فارمز پر کینیڈا کی مقامی خبروں کو بلاک کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔

گوگل اور میٹا کا یہ اعلان کینیڈا کی جانب سے ملک میں ایک بل منظور کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت دونوں پلیٹ فارمز کو آن لائن مواد کی نشریات کے لیے ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔

ایسی صورتحال میں اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟

کیوبیک میں فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’لا پریس‘ کے صدر پیری ایلیوٹ لیویسیور کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انھوں نے کئی سالوں تک ٹیک کمپنیوں کے ساتھ ادائیگی کے لیے معاہدوں پر مذاکرات کی کوشش کی۔ ان کے مطابق انھیں یقین ہے کہ ’ٹیک کمپنیاں خبروں اور مضامین کے زور پر ڈیٹا اوراشتہارات کی مد میں ڈالرز کو ہضم کر رہے ہیں۔

انھوں نے انٹرویو میں کہا  کو بتایا، ’ سالہا سال سے وہ صاف انکاری ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آن لائن نیوز ایکٹ کے نام سے جانا جانے والا نیا قانون اس رجحان میں کمی لا کر صورت حال میں بہتری لائے گا اور اس سے حاصل ہونے والا فنڈ کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے۔

اس نئے قانون کا مقصد گوگل اور میٹا کو خبر رساں اداروں کے ساتھ ادائیگی کے معاہدے طے کرنے پر مجبور کرنا ہے تاہم اگر دونوں فریق کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تو ملک کا براڈکاسٹ ریگولیٹر انھیں ثالثی پر مجبور کر سکتا ہے۔

پارلیمانی بجٹ کے آزاد نگران ادارے کے اندازوں کے مطابق اس اقدام سے سالانہ 300 ملین کنیڈین ڈالرز یا 256 ملین امریکی ڈالرز سے زیادہ آمدن ہو سکتی ہے جو ایک عام نیوز روم کو چلانے کے لیے درکار فنڈنگ کا تقریبا 30 فیصد ہے۔

تاہم اس قانون سے معاہدوں کا راستہ کھلنے کے بجائے لا پریس سمیت کینیڈا کی کم و بیش ہر نیوز آرگنائزیشن کو اب ایک ممکنہ بلیک آؤٹ کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ ٹیک کمپنیز نے اس قانون پر عمل کرنے کے بجائے اپنے پلیٹ فارمز پر نیوزآرٹیکلز کے لنکس کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میٹا کی جانب سے ابتدا سے ہی اس تجویز کی مخالفت سامنے آتی رہی ہے اور اب اس کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ چند ماہ میں کینیڈا کے صارفین کے لیے اپنی نیوز سائٹس کو بلاک کرنا شروع کر دے گی۔

دوسری جانب گوگل اس سے قبل یورپ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں خبر فراہم کرنے والوں کے ساتھ ادائیگی کے معاہدے کرتا آیا ہے تاہم رواں ہفتے اس نے کینیڈا کے موجودہ قانون کو ’ناقابل عمل‘ قرار دے دیا اور کہا کہ یہ ایکٹ چھ ماہ میں نافذ ہونے کے بعد ملک میں اپنی سرچ سے کینیڈا کی خبروں کے لنکس کو ہٹا دے گا۔

گوگل کا کہنا ہے کہ اسوقت ان کے تقریباً 150 سے زیادہ کینیڈا کے خبر رساں اداروں کے ساتھ معاہدے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس کی ٹریفک نے نیوز ویب سائٹس کو سالانہ ڈھائی سو ملین کنیڈین ڈالر کمانے میں مدد کی ہے۔

کمپنی نے ادائیگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’ہم مزید کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم ہم اسے اس طریقے سے نہیں کر سکتے جس سے ویب اور سرچ انجن کے کام کرنے کے طریقے متاثر ہوں اور مالی اعتبار سے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔

اس ماہ قانون کے منظور ہونے سے پہلے، وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹیک فرمز کی طرف سے خبروں کو بلیک آوٹ کرنے کی ان دھمکیوں کو مسترد کر دیا تھا۔

اس سے قبل جون میں ان کا کہنا تھا ’حقیقت یہ ہے کہ یہ انٹرنیٹ کمپنیاں ادائیگیوں میں منصفانہ حصہ ادا کرنے کے بجائے مقامی خبروں تک کینیڈا کے باشندوں کی رسائی منقطع کر دیں گی۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہےاور اب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہے ہیں لیکن یہ کارگر نہیں ہو گا۔

ٹیک انڈسٹری کی تنظیموں نے اس کوشش کا موازنہ ’شیک ڈاؤن‘ سے کیا ہے لیکن لیواسور کہتے ہیں کہ میڈیا میں کوئی بھی اس کا حل نہیں ڈھونڈ رہا۔

ان کےمطابق ’ہم منصفانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کا موقع مانگ رہے ہیں تاہم ان کی اجارہ داری کے باعث ایسا ہو نہیں پا رہا۔

تو پھر آخر یہ تنازعہ کیوں کر حل ہو پائے گا

سینٹر فار جرنلزم اینڈ لبرٹی کی ڈائریکٹر کورٹنی راڈش کا کہنا ہے کہ زیرِ بحث رقوم ہر سال ٹیک کمپنیوں کی طرف سے بنائے گئے دسیوں بلین ڈالر کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن یہی رقم صحافت کے لیے نئی زندگی ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گوگل اور فیس بک کو ان خبروں کے لیے ادائیگی کرنی چاہیے جو وہ اپنے پلیٹ فارم پر استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ جمہوریت کے بنیادی ستون کے طور پر صحافت کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

کینیڈا نے اپنے اصول کو اس اقدام کے مطابق بنایا جسے آسٹریلیا نے 2021 میں منظور کیا تھا۔ اس قانون نے اسی طرح کے اعتراضات اور مخالفت کو جنم دیا تھا جس نے میٹا کو وہاں پابندی عائد کرنے پر اکسایا۔

تاہم بل میں بعض تبدیلیوں کے بعد دونوں کمپنیوں کے پبلشرز کے ساتھ تقریبا 30 سے زیادہ سودے طے پائے جن کی مالیت 130 ملین ڈالر سے زیادہ کی تھی۔

اس قانون کو تیار کرنے والی آسٹریلیا کی مسابقتی ایجنسی کی قیادت کرنے والے ماہر اقتصادیات روڈنی سمز کا دعویٰ ہے کہ کمپنیاں اس بار بھی ایسا ہی کریں گی باوجود اس کے کہ میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ پلیٹ فارم کو خبروں سے ذیادہ صارفین کے ذاتی مواد کے لیے مفید بنا رہے ہیں۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ ’فیس بک کو یہ معاملہ زیادہ پسند نہیں لیکن خبروں کی غیر موجودگی میں سرچ فیچر موثر نہیں ہو سکتا اور میرے خیال میں فیس بک کو جلد پتہ چل جائے گا کہ خبروں کے بغیر آپ کو فیس بک فیڈ دینا بہت مشکل کام ہو گا۔ خبروں سے ہی ان کی سروس مکمل ہوتی ہے۔

گوگل، میٹا، ایپل اور دیگر ٹیک کمپنیوں کے ساتھ لائسنسنگ کے معاہدے کرنے والی فرم گلوب اینڈ میل کے چیف ایگزیکٹیو فلپ کرولی، نے سرچ (تلاش) کے لیے موجود وسیع تر تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا مثلاً چیٹ جی پی ٹی اور چیٹ بوٹ جو صارفین کے سوالات پر انھیں لنکس فراہم کرنے کے بجائے خود جواب دیتے ہیں۔

فلپ کرولی نے اس بل کی حمایت میں بات کرتے ہوئے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ کینیڈا کے براڈکاسٹ ریگولیٹر کو دی گئی بعض طاقتوں سے پریس کی آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

دنیا ایک مختلف جگہ پر ہے لہذا مجھے نہیں لگتا کہ آسٹریلیا میں ماڈل ایسا ہے کہ ہمیں اس سے اب بہت زیادہ رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ وہ تب تھا اور اب یہ ہے۔